کتاب: دین کے تین اہم اصول مع مختصر مسائل نماز - صفحہ 40
جو شخص لو گوں کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہو۔ جو شخص علم ِغیب جاننے کا دعوی کر تا ہو۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہو ئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے۔ اور اس بات کی دلیل یہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ لْوُثْقٰی لَاانْفِصَامَ لَھَا،وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ } ( البقرہ : ۲۵۶) ’’دین کے معاملہ میں زور زبردستی نہیں ہے کیونکہ ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے، اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا تو اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے، اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے ) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔‘‘ یہی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ( اللہ کے سوا کو ئی معبو دِ بر حق نہیں ہے ) کا صحیح مفہوم و معنیٰ ہے۔ حدیث ِپاک میں ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((رَاْسُ الْاَمْرِ اَلْاِسْلَامُ وَعُمُوْدُہٗ الصَّلوٰٰۃُ وَذِرْوَۃُ سَنَامِہٖ اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ)) [1] ’’اس دین کی اصل چیز ،اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کا اعلی ترین مرتبہ ومقام جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔‘‘ واللّٰہ اعلم تمت الاصول الثلا ثۃ
[1] ترمذی ۵/۱۳ حدیث:۲۶۱۶،ابن ماجہ ۲/۱۳۹۴حدیث:۳۹۷۳،مسند احمد۵/۲۳۱،۲۳۷،امام السیوطی نے الجامع الصغیر میں اسے صحیح اورعلّامہ المناوی نے اسکی شرح فتح القدیر میں اسے حسن کہا ہے۔