کتاب: دین کے تین اہم اصول مع مختصر مسائل نماز - صفحہ 20
’’ دعاء عبادت کا مغز(اصل ) ہے ۔‘‘ [1] اور قرآن پاک میں ’’ دعا ء ‘‘کے عبادت ہو نے کی دلیل یہ فرمانِ ربانی ہے : {وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ ٓاَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَo} (المؤمن :۰ ۶ ) ’’تمہارا رب کہتاہے کہ مجھے پکارو،میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑ تے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہونگے ۔‘‘ ’’خوف‘‘ کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد اِلٰہی ہے : {فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o} ( آ ل عمران: ۱۷۵) ’’پس تم انسانوں سے نہ ڈرنا ،مجھ سے ڈرنا، اگر تم حقیقت میں صا حبِ ایمان ہو ۔‘‘ ’’امید و رجاء‘‘ کے عبادت ہونے کی دلیل یہ آیتِ قرآنی ہے: {فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْلِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًاصَالِحًا وَّلَایُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًاo} (ا لکھف: ۱۱۰) ’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اُسے چاہیئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔‘‘ ’’توکّل‘‘ کے عبادتِ الٰہی ہونے کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے : {وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْآ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo } (المائدۃ : ۲۳) ’’اور اللہ پر بھروسہ (توکّل ) رکھو،اگر تم مؤمن ہو۔‘‘
[1] جبکہ ایک صحیح حدیث میں ہے:((الدعاء ھوالعبادۃ)) ’’دعاء عین عبادت ہے۔‘‘ (مسند احمد وابویعلیٰ،مصنّف ابن ابی شیبہ،الادب المفرد بخاری،سنن اربعہ،صحیح ابن حبان،مستدرک حاکم،صحیح سنن ابی داؤد:۱۳۲۹،مشکوٰۃ:۲۳۳۰،صحیح الجامع:۳۴۰۸،ارواء الغلیل:۲۲۴)