کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 96
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ قَاتِلْھُمْ حَتَّی یَشْھَدُوْا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا صلي اللّٰهُ عليه وسلم رَسُوْلُ اللّٰہِ۔فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ فَقَدْ مَنَعُوْا مِنْکَ دِمَائَ ھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ إِلاَّ بِحَقِّھَا،وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘[1]
’’ ان سے لڑو،یہاں تک،کہ وہ گواہی دیں،کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ محمد۔صلی اللہ علیہ وسلم۔اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔پس جب وہ یہ کرلیں،تو انہوں نے اپنے خونوں اور مالوں کو تم سے بچالیا،مگر ان کے حق کے ساتھ [2] اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔‘‘[3]
اس حدیث شریف میں یہ بات واضح ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا،کہ وہ خیبر کے یہودیوں کو دعوت دینے کا آغاز توحید و رسالت کے اقرار کا حکم دینے سے کریں۔
د:معاذ رضی اللہ عنہ کو توحید و رسالت کی گواہی کا حکم دینے کے ساتھ آغازِ دعوت کا فرمان:
امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کرتے وقت
[1] صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل علي بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ،۳۳(۲۴۰۵)،۴؍۱۸۷۱۔۱۸۷۲۔
[2] یعنی کوئی ایسی حرکت کریں،کہ ازروئے اسلام اس بات کے مستحق قرار پائیں،کہ ان کے مالوں کو چھینا جائے اور ان کے خون بہائے جائیں۔
[3] مراد یہ ہے،کہ توحید و رسالت کے اقرار کے بعد اگر وہ اپنے دلوں میں کچھ اور چھپائیں گے،تو یہ معاملہ ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے۔اسلامی ریاست میں توحید و رسالت کی گواہی کے بعد وہ مسلمان قرار پائیں گے۔