کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 92
کیا:
’’ بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم عَلیٰ شَھَادَۃِ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ،وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ،وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ،وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ،وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔‘‘[1]
’’ ہم نے اس بات کی گواہی دینے پر،کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے،سمع و طاعت [2] اور ہر مسلم کے لیے خیر خواہی کرنے پر رسول اللہ … صلی اللہ علیہ وسلم … کی بیعت کی۔‘‘
اس حدیث شریف میں یہ بات واضح ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ سے توحید و رسالت کی گواہی دینے پر بیعت لی۔امام ابن مندہ نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
’’ ذِکْرُ بَیْعَۃِ النَّبِیِّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم أَصْحَابَہُ عَلیٰ شَھَادَۃِ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا صلي اللّٰهُ عليه وسلم رَسُوْلُ اللّٰہِ۔‘‘[3]
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ سے اس بات کی گواہی دینے پر بیعت لینے کا
[1] کتاب الإیمان،رقم الحدیث ۱۲۲،۱؍۲۶۴۔امام بخاری نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے،لیکن اس میں [بَایَعْنَا] [یعنی ہم نے بیعت کی] کی بجائے [بَایَعْتُ] [یعنی میں نے بیعت کی] ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب ھل یبیع الحاضر لباد بغیر أجر؟ وھل یعینہ وینصحہ؟،رقم الحدیث:۲۱۵۷،۴؍۳۷۰)۔ڈاکٹر علی الفقیہی نے ابن مندہ کی روایت کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:ھامش کتاب الإیمان ۱؍۲۶۴)۔
[2] سمع و طاعت سے مراد امت کے اہل اقتدار کی بات سننا اور قرآن و سنت کی عدم مخالفت کی صورت میں ان کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔
[3] کتاب الإیمان ۱؍ ۲۶۴۔