کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 57
سب رسول ایک دعوت اور ایک دین پر متفق ہیں اور وہ یہ ہے،کہ بلاشرکت غیرے تنہا اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔‘‘ ۳: امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ فَأَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ علیہما السلام فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ،وَالْأَنْبِیَائُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ،أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ۔‘‘[1] ’’میں دنیا اور آخرت میں عیسیٰ بن مریم۔علیہما السلام۔سے تمام لوگوں سے زیادہ قریب ہوں۔انبیاء۔علیہم السلام۔علاتی بھائیوں[کی طرح] ہیں،کہ ان کی مائیں جدا جدا ہوں اور ان [ سب] کا دین ایک ہے۔‘‘ اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا،کہ جملہ انبیاء علیہم السلام کا دین،فروعی مسائل میں باہمی اختلاف کے باوجود،ایک ہے۔حافظ ابن حجر نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے: ’’ وَمَعْنَی الْحَدِیْثِ أَنَّ أَصْلَ دِیْنِھِمْ وَاحِدٌ،وَھُوَ التَّوْحِیْدُ،وَإِنِ اخْتَلَفَتْ فُرُوْعُ الشَّرَائِعِ۔‘‘ [2] ’’حدیث کا معنی یہ ہے،کہ ان [انبیاء علیہم السلام] کے دین کی بنیاد،فروعی باتوں میں اختلاف کے باوجود،ایک ہے اور و ہ توحید ہے۔‘‘ ب:انبیاء علیہم السلام کی دعوت توحید کے متعلق تفصیلی نصوص:
[1] صحیح البخاري،کتاب أحادیث الأنبیاء،باب قول اللہ تعالیٰ:{وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ اِذِانْتَبَذَتْ مِنْ أَھْلِھَا}،رقم الحدیث ۳۴۴۳،۶؍۴۷۸۔ [2] فتح الباري ۶؍۴۸۹۔