کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 43
أُحْيٰ،ثُمَّ قُتِلَ،ثُمَّ أُحْيٰ،ثُمَّ قُتِلَ،وَعَلَیْہِ دَیْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ،حَتَّی یُقْضَی عَنْہُ دَیْنُہُ۔‘‘[1] ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جائے،پھر اسکو زندہ کیا جائے،پھر اس کو قتل کیا جائے،پھر اس کو زندہ کیا جائے،پھر اس کو قتل کیا جائے اور اسکے ذمے قرض ہو،تو وہ قرض ادا ہونے تک جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘ ز:پڑوسی کو ایذا دینا: امام بخاری نے حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وَاللّٰہِ!لَا یُوْمِنُ،وَاللّٰہِ!لَا یُوْمِنُ،وَاللّٰہِ!لَا یُوْمِنُ۔‘‘ ’’واللہ!وہ ایمان والا نہیں،واللہ!وہ ایمان والا نہیں،واللہ!وہ ایمان والا نہیں۔‘‘ ’’ قِیْلَ:’’وَمَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘ صلي اللّٰهُ عليه وسلم عرض کیا گیا:’’ کون یا رسول اللہ!‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] سنن النسائي،کتاب البیوع،التغلیظ في الدین،۷؍۳۱۴۔۳۱۵؛ والمستدرک علی الصحیحین،کتاب البیوع ۲؍۲۵ ؛ وشرح السنۃ،کتاب البیوع،باب التشدید في الدین،رقم الحدیث ۲۱۴۵،۸؍۲۰۱۔الفاظِ حدیث سنن النسائی کے ہیں۔امام حاکم نے اس کی [اسناد کو حسن] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے۔شیخ البانی نے سنن النسائی کی روایت کو [صحیح] اور شیخ ارناؤوط نے شرح السنۃ کی روایت کی [ اسناد کو حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المستدرک علی الصحیحین ۲؍۲۵ ؛ والتلخیص ۲؍۲۵ ؛ و صحیح سنن النسائي ۳؍۹۶۹ ؛ وھامش شرح السنۃ ۸؍۲۰۱)۔