کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 40
وہ اسے کوئی اہمیت بھی نہیں دیتا،[لیکن] وہ اس کی بنا پر جہنم میں گر جاتا ہے۔‘‘ اور صحیح مسلم میں ہے: ’’ إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مَا یَتَبَیَّنُ مَا فِیہَا،یَہْوِي بِہَا فِيْ النَّارِ،أَبْعَدَ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔‘‘[1] ’’بلاشبہ بندہ ایک لفظ بولتا ہے،وہ اس میں غورو فکر بھی نہیں کرتا،[لیکن] وہ اس کے سبب دوزخ میں اس قدر گہرائی میں گرتا ہے،جو کہ مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ اورجامع الترمذی میں ہے: ’’لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ لَا یَرَی بِہَا بَأْسًا یَہْوِي بِہَا سَبْعِینَ خَرِیفًا فِی النَّارِ۔‘‘[2] ’’بے شک آدمی ایک لفظ بولتا ہے،وہ اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتا،[مگر] وہ اس کی وجہ سے ستر سال تک دوزخ میں گرایا جائے گا۔‘‘ د:کسی کا حقارت سے ذکر کرنا: حضرات ائمہ احمد،ابو داود اور ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا:
[1] صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق،باب المتکلم بالکلمۃ،یھوي بہا في النار،رقم الحدیث ۵۰۔(۲۹۸۸)،عن أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ،۴؍۲۲۹۰۔ [2] جامع الترمذي،أبواب الزھد،باب ما جاء من تکلّم بالکلمۃ لیضحک الناس،رقم الحدیث ۲۴۱۶ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ ۶؍۴۹۷۔امام ترمذی نے اس کو [حسن] اور شیخ البانی نے [حسن صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۶؍۴۹۷؛ وصحیح سنن الترمذي ۲؍۲۶۸)۔