کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 35
دیا۔{وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرَدُّوْنَ إِلیٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ}[1] یعنی سب سے زیادہ سنگین عذاب کی طرف روزِ قیامت لوٹائے جائیں گے۔{وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ} ’’اور اللہ تعالیٰ تمہاری کرتوتوں سے غافل نہیں ہیں۔‘‘[2] علامہ ابو حیان اندلسی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: ’’{أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ}[3] یہ [اسلوب تو ] سوالیہ ہے،[لیکن] اس سے مراد سرزنش اور ڈانٹ ہے۔ان کی مذمت فدیہ دینے کی وجہ سے نہیں،بلکہ ان کے طرزِ عمل میں تناقض کی وجہ سے ہے،کہ انہوں نے فرض کردہ بات کے کچھ حصہ پر عمل کیا اور کچھ کو چھوڑ دیا،ان کے طرزِ عمل کا یہ تناقض زیادہ قابل مذمت ہے۔‘‘ [4] تنبیہات: اس مقام پر قارئین کرام کی توجہ درج ذیل چار باتوں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں: ۱: اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا میں [خِزْيٌ] کا عذاب مقرر فرمایا ہے۔اور [خِزْيٌ] سے مراد ذلت،رسوائی اور بدنا می ہے اور اس کی سنگینی کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو اسم نکرہ استعمال فرمایا ہے اور یہ عذاب ان پر بنوقریظہ کے قتل اور بنو نضیر کے شام کے اذرعات اور اریحاء علاقوں کی طرف جلا وطنی کی صورت میں واقع ہوا۔[5]
[1] ترجمہ:’’اور وہ روزِ قیامت سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘ [2] ملاحظہ ہو:تفسیر السعدي ص۵۸؛ نیز ملاحظہ ہو:تفسیر ابن کثیر ۱؍۱۲۹۔۱۲۰۔ [3] ترجمہ:’’کیا تم کتاب کا کچھ حصہ مانتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو؟‘‘ [4] تفسیر البحر المحیط ۱؍۴۶۱۔ [5] ملاحظہ ہو:تفسیر أبي السعود ۱؍۱۲۶۔