کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 33
بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ إِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ إِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۔أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ۔} [1] ’’اور جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا،کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے او ر نہ اپنے آپ کو(یعنی اپنی جماعت کے افراد کو) جلا وطن کرو گے،پھر تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم [اب بھی ] یہ بات مانتے ہو۔ پھر تم ہی وہ لوگ ہو،کہ ایک دو سرے کو قتل کرتے ہو اور اپنے میں ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکالتے ہو،گناہ اور زیادتی میں ان کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو۔اور اگر وہ تمہارے پاس قیدی ہو کر آئیں،تو تم فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے ہو۔حالانکہ اصل تو یہ ہے،کہ ان کا نکالنا ہی تم پر حرام ہے،تو کیا تم کتاب کا کچھ حصہ مانتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو؟ سو تم میں سے جو شخص یہ کرے،تو اس کی جزا اس کے سوا اور کیا ہے،کہ دنیا میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں،او ر جوکچھ تم کرتے ہو،اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں۔‘‘ مذکورہ بالا آیات کریمہ کے شانِ نزول کے متعلق شیخ سعدی تحریر کرتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اوس اور خزرج … انصار کے دو قبیلے … مشرک تھے اور زمانہ جاہلیت کے رواج کے مطابق باہمی لڑائیوں میں مشغول رہتے تھے۔
[1] سورۃ البقرۃ؍ الآیات ۸۴۔۸۶۔