کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 32
سنن ابی داود میں ۱۸۷۶،سنن الترمذی میں ۲۲۹۹،سنن النسائی میں ۲۵۲۴ اور سنن ابن ماجہ میں ۱۵۱۱ ہے۔
بلاشک و شبہ ان ابواب کی یہ کثرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی وسعت اور جامعیت کو خوب نمایاں کرتی ہے۔
گفتگو کا حاصل یہ ہے،کہ جو شخص حقیقی معنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو کاروں میں شامل ہونا چاہے،وہ دعوتِ دین کو چند ایک مخصوص باتوں میں محصور نہ کرے،بلکہ اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے دین کی تمام باتوں کی طرف بلائے۔ہاں اس سلسلے میں مخاطب لوگوں کی ضروریات اور حالات کو پیش نظر رکھے اور اپنے علم کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔
(۴)
کچھ احکامِ الٰہیہ کے ماننے اور کچھ کے انکار کا بُرا انجام
اللہ عزوجل نے یہودیوں سے تین باتوں کی پابندی کا عہد لیا۔انہوں نے ان میں سے ایک بات کی پابندی کی اور دو کو چھوڑ دیا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں شدید سرزنش کی اور دنیا و آخرت میں ان کے بُرے انجام کو بیان فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں بیان فرمایا:
{وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لَا تَسْفِکُوْنَ دِمَآئَ کُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ أَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ۔ثُمَّ أَنْتُمْ ھٰؤُلَآئِ تَقْتُلُوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِھِمْ تَظٰھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ یَّاْتُوْکُمْ أُسٰرٰی تُفٰدُوْھُمْ وَھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ إِخْرَاجُھُمْ أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ