کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 28
درمیان اصلاح کروانا ؛ اوراس میں سے خارجیوں اور باغیوں سے جنگ کرنا،نیکی میں تعاون کرنا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر[1]ہیں؛ حدود کا قائم کرنا،جہاد کرنا اور اسلامی سرحدوں کی چوکیداری کرنا اس میں شامل ہیں ؛ امانت کا ادا کرنا،اوراسی میں سے خمس[2]کا ادا کرنا ہے؛ قرض اور اس کی ادائیگی؛ اکرام جار؛[3] اچھا معاملہ کرنا؛ اور اسی
میں سے حلال طریقہ سے مال کا جمع کرنا اور صحیح جگہ پر خرچ کرنا اور اسراف[4] و تبذیر[5] کا ترک کرنا ہے ؛سلام کا جواب دینا؛ چھینک مارنے والے کے الحمد للّٰہ[6] کہنے پر [یَرْحَمُکَ اللّٰہ] [7] کہنا ؛ لوگوں سے اذیت کو روکنا؛ لہو سے گریز کرنا اور راستے سے اذیت دینے والی چیز کو دُور کرنا ہیں۔
یہ ۶۹ خصلتیں ہیں۔اگر دو دو باتوں پر مشتمل بعض خصلتوں کو جدا جدا کیا جائے،تو ان کی گنتی ۷۹ ہو جاتی ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
جب مذکورہ بالا تمام باتیں ایمان کی خصلتوں میں شامل ہیں،تو ضروری ہے،کہ
[1] یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔
[2] خمس:مال غنیمت کا پانچواں حصہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم،آپ کے قرابت داروں،یتیموں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے مخصوص تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس کی تقسیم کے بارے میں علمائے اُمت کی متعدد آراء ہیں۔ایک رائے یہ ہے،کہ وہ امامِ وقت کے زیر تصرف ہو گا اور وہ اس کو اُمت کے مصالح عامہ پر خرچ کرے گا؛ دوسری رائے یہ ہے،کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں پر خرچ کیا جائے گا ؛ ایک تیسری رائے یہ ہے،کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں،یتیموں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہو گا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(ملاحظہ ہو:تفسیر القاسمي ۸؍۶۱)۔
[3] یعنی پڑوسی کی عزت و توقیر کرنا۔
[4] اسراف سے مراد جائز جگہ پر اپنی استطاعت یا اعتدال سے زیادہ خرچ کرنا۔
[5] تبذیر سے مراد ناجائز جگہ مال کا خرچ کرنا۔
[6] (الحمد للّٰہ) سے مراد سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔
[7] (یرحمک اللّٰہ) کا معنی [اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کریں]۔