کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 165
رکھے۔اس ضمن میں درج ذیل چار پہلوؤں سے گفتگو کی گئی ہے:
ا: حضرات انبیائے سابقین علیہم السلام توحید و رسالت کی دعوت دینے کے بعد دیگر موضوعات کے انتخاب میں اپنی اپنی اُمتوں کے حالات کو مدنظر رکھتے۔ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اسراف و تبذیر اور ظلم و جبروت سے روکا،لوط علیہ السلام نے اپنی اُمت کو مردوں کے ساتھ برائی سے باز رہنے کی شدت سے تلقین کی۔شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم میں رائج ماپ اور تول میں کمی کے برے دستور سے منع کیا اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعوت میں قوم کو فرعون کی غلامی اور عبودیت سے نکالنے کی کوشش کی۔
ب: ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعوت میں مخاطب لوگوں کے احوال و مسائل اور ان کی عقلی و فکری استعداد کا بہت خیال رکھتے۔سیرت طیبہ میں اس بات پر دلالت کرنے والی بہت سی باتوں میں سے تین درج ذیل ہیں:
۱:وصایا مبارکہ میں تنوع
۲:ایک جیسے سوال کے باوجود فتویٰ میں اختلاف
۳:بعض باتوں کی خبر مخصوص صحابہ کو دینا۔
ج: سلف صالحین بھی مخاطب لوگوں کے حالات کا خصوصی خیال رکھتے۔ان سے گفتگو کرتے وقت ان کی سوجھ بوجھ کو پیش نظر رکھتے اور دوسروں کو بھی اسی بات کی تاکید کرتے۔
د: دعوت دین میں مخاطب لوگوں کے حالات کا خیال رکھنے کے متعلق حدود و ضوابط ہیں۔اور ان میں سے ایک اہم ترین قاعدہ یہ ہے،کہ [دعوتِ توحید اور ردّ شرک میں مداہنت نہیں]۔سیرتِ طیبہ میں موجود مثالیں اس قاعدہ کی تاکید کرتی ہیں۔
۵:صرف کتاب و سنت کی طرف دعوت دینا:
داعی کی دعوت صرف کتاب و سنت کی طرف ہوگی۔اس ضمن میں گفتگو درج ذیل