کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 155
علامہ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
’’[وَلَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا] أَي مَا جَازَ لَہُ(إِلاَّ اتَّبَاعِي) فِيْ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ،فَکَیْفَ یَجُوْزُ لَکُمْ أَنْ تَطْلُبُوْا فَائِدَۃً مِنْ قَوْمِہٖ مَعَ وَجُوْدی۔‘‘[1]
’’ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے،تو تمام اقوال و افعال میں میرے [یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے]
سوا کسی اور کی پیروی کرنا ان کے لیے جائز نہ ہوتا۔پس [یعنی جب صورتِ حال یہ ہے،تو] تمہارے لیے یہ کیسے روا ہوسکتا ہے،کہ تم میری موجودگی کے باوجود ان کی قوم سے کوئی فائدہ طلب کرو؟] ‘‘
(۳)
علمائے اُمت کے اقوال
متقدمین اور متاخرین میں سے بہت سے علمائے امت نے اس بات کی تاکید کی ہے،کہ دعوت صرف کتاب و سنت ہی کی طرف دی جائے۔ان کے سوا کسی اور چیز کی طرف نہ بلایا جائے۔ذیل میں ان میں سے تین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے:
۱: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان:
امام دارمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے فرمایا:
’’ أَمَا تَخَافُوْنَ أنْ تُعَذَّبُوْا أَوْ یُخْسَفُ بِکُمُ الْأَرْضُ أَنْ تَقُوْلُوْا:’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم وَقَالَ فُلَانٌ۔‘‘[2]
[1] مرقاۃ المفاتیح ۱؍ ۴۲۵۔
[2] سنن الدارمي،باب ما یتّقی من تفسیر حدیث النبي صلی اللہ علیہ وسلم،وقول غیرہ عند قولہ صلی اللہ علیہ وسلم،رقم الروایۃ ۴۳۷،۱؍۹۵۔