کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 154
لَوْ أَنَّ مُوْسَی کَانَ حَیًّا مَا وَسِعَہُ إِلاَّ أَنْ یَتَّبِعَنِيْ۔‘‘[1] ’’ اے ابن خطاب!کیا تم اس [یعنی اپنے دین] [2] میں بھٹکنے والے ہو؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!بلاشبہ میں تمہارے پاس روشن اور بے عیب دین لے کر آیا ہوں۔کسی چیز کے بارے میں ان [یعنی اہل کتاب] سے نہ پوچھو،عین ممکن ہے،کہ وہ تمہیں درست بات بتلائیں اور تم انہیں جھٹلادو،یا ناحق بات بتلائیں اور تم ان کی تصدیق کردو۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!بلاشبہ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے،تو ان کے لیے بھی میری فرمانبرداری کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘ حدیث کی شرح میں ملا علی قاری تحریر کرتے ہیں: ’’ وَالْحَاصِلُ أَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَشَارَ بِذٰلِکَ إِلَی أَنَّہُ أَتَاھُمْ بِالْأَعْلیٰ وَالْأَفْضَلِ،وَاسْتِبْدَالُ الْأَدْنَی مِنْہُ مَظِنَّۃٌ لِلتَّحَیُّرِ۔‘‘[3] ’’ خلاصہ یہ ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ان کے لیے یہ اشارہ فرمایا،کہ وہ ان کے پاس اعلیٰ و افضل [دین] لے کر آئے ہیں۔اس کو چھوڑ کر کم درجے والی چیز کو لینا حیرانی کی علامت ہے۔‘‘
[1] المسند،رقم الحدیث ۱۵۱۵۶،۲۳؍۳۴۹۔اس حدیث میں اگرچہ ایک راوی میں [ضعف] ہے،لیکن حدیث کے متعدد طرق کی بنا پر کئی ایک محدثین نے اس کو قابل حجت قرار دیا ہے۔انہی حضرات میں سے امام احمد بن حنبل،سید احمد حسن دہلوی،شیخ البانی اور شیخ ابوالاشبال زہیری ہیں۔(ملاحظہ ہو:مرقاۃ المفاتیح ۱؍۴۲۴؛ وتنقیح الرواۃ ۱؍۴۲؛ وھامش مشکاۃ المصابیح ۱؍۶۳؛ وصحیح جامع بیان العلم وفضلہ،رقم الروایۃ ۱۰۳۰،ص ۳۱۵)۔ [2] ملاحظہ ہو:مرقاۃ المفاتیح ۱؍ ۴۲۳۔ [3] المرجع السابق ۱؍ ۴۲۵۔