کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 152
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،انہوں [حضرت عمر رضی اللہ عنہ ] نے [اس کو] پڑھنا شروع کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے [کا رنگ] بدلنا شروع ہوگیا۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ ثَکِلَتْکَ الثَّوَاکِلُ،مَا تَرَی مَا بِوَجْہِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم ؟ ‘‘ ’’ تجھے گم کرنے والی عورتیں گم کرجائیں [یعنی تو مرجائے]،کیا تو دیکھ نہیں رہا،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے ساتھ کیا ہے؟(یعنی کس طرح اس کی کیفیت بدل چکی ہے)۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھا،تو کہنے لگے: ’’ أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ غَضَبِ اللّٰہِ،وَمِنْ غَضَبِ رَسُوْلِہِ۔رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا،وَبِالْإِسْلَامِ دِیْنًا،وَبِمُحَمَّدٍ صلي اللّٰهُ عليه وسلم نَبِیًّا۔‘‘ ’’ میں اللہ تعالیٰ کے غضب اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے،اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔‘‘ سو [یعنی اس موقع پر] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ!لَوْ بَدَالَکُمْ مُوْسٰی فَاتَّبَعْتُمُوْہُ وَتَرَکْتُمُوْنِيْ لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَائِ السَّبِیْلِ،وَلَوْ کَانَ حَیًّا وَأَدْرَکَ نُبُوَّتِيْ لَاتَّبَعَنِيْ۔‘‘[1]
[1] سنن الدارمي،باب ما یتَّقی من تفسیر حدیث النبي صلی اللہ علیہ وسلم،وقول غیرہ عند قولہ صلی اللہ علیہ وسلم،رقم الحدیث ۴۴۱،۱؍۹۵۔حدیث کے ایک راوی مجالد بن سعید کے ضعیف ہونے کے باوجود شیخ البانی نے حدیث کے متعدد طرق کی بنا پر اس کو [حسن] قرار دیاہے۔(ملاحظہ ہو:ھامش مشکاۃ المصابیح ۱؍ ۶۳)؛ شیخ عبداللہ ھاشم مدنی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:اس حدیث کو احمد نے [اسنادِ حسن] اور ابن حبان نے [صحیح الإسناد] کے ساتھ بھی روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو:ھامش سنن الدارمي ۱؍ ۹۵)۔