کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 151
۱: امام حاکم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے،کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ!إِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا إِن اعْتَصَمْتُمْ بِہِ فَلَنْ تَضِلُّوْا أَبَدًا:کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ نَبِیِّہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘[1]
’’ اے لوگو!یقینا میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کے جارہاہوں،کہ اگر تم اسکو مضبوطی سے تھام لوگے،تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے:اللہ تعالیٰ کی کتاب اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘
اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو واضح فرمایا ہے،کہ امت کو گم راہی سے محفوظ کرنے والی چیز کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی پیروکار سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی،کہ وہ گم راہی سے بچانے والی چیز کو چھوڑ کر امت کو کسی اور چیز کی طرف بلائے۔
۲: امام دارمی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ یقینا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ تورات کا ایک نسخہ لیے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔انہوں نے عرض کیا:
’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!ھٰذِہِ نُسْخَۃٌ مِنَ التَّوْرَاۃِ۔‘‘
’’ اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!یہ تورات کا ایک نسخہ ہے۔‘‘
[1] المستدرک علی الصحیحین،کتاب العلم،۱؍ ۹۳۔امام حاکم نے اس حدیث کو [صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۱؍ ۹۳؛ والتلخیص ۱؍۹۳)؛ شیخ البانی نے اس کی [اسناد کو حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:ھامش مشکاۃ المصابیح ۱؍۶۶؛ وسلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۴؍۳۶۱)؛ نیز ملاحظہ ہو:جامع بیان العلم وفضلہ للحافظ ابن عبدالبر،باب الحض علی لزوم السنۃ والاقتصار علیہا،ص ۴۸۱،وصحیح جامع بیان العلم وفضلہ ص ۵۰۱۔