کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 150
تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے تو صرف کھلم کھلا پہنچادینا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت یہ ہے،کہ قرآنِ کریم کے احکامات کو مانا جائے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ان کی سنت کی پیروی میں ہے۔[1] اور داعی إلی اللہ تو اس بات کا پابند ہے،کہ صرف اسی چیز کی طرف بلائے،کہ جس کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔لہٰذا وہ کتاب و سنت کے سوا کسی اور چیز کی طرف لوگوں کو نہ بلائے گا۔
(۲)
حدیث شریف سے دلائل
اس سلسلے میں متعدد احادیث شریفہ بھی موجود ہیں۔توفیق الٰہی سے ذیل میں ان میں سے تین پیش کی جارہی ہیں:
[1] اللہ تعالیٰ کے ارشاد:{فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُول} [ترجمہ:پس اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو،تو اس کو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ]
کی تفسیر میں امام میمون بن مہران نے بیان کیا ہے،کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانا،ان کی کتاب کی طرف لوٹانا ہے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانا،ان کی زندگی میں ان کی طرف اور ان کی وفات کے بعد،ان کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔(ملاحظہ ہو:تفسیر الطبري،رقم الأثر ۹۸۸۳،۸؍۵۰۵)۔
حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:یہ اللہ عزوجل کی طرف سے حکم ہے،کہ لوگ دین کے کسی بھی بنیادی یا فروعی مسئلے میں جھگڑیں،تو اس جھگڑے کو کتاب و سنت کی طرف لوٹادیں۔(ملاحظہ ہو:تفسیر ابن کثیر ۱؍ ۵۶۸)۔
علامہ سیوطی تحریر کرتے ہیں،کہ اس سے مراد یہ ہے،کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف لوٹادو۔(ملاحظہ ہو:مفتاح الجنۃ في الاعتصام بالسنۃ،ص ۱۹؛ نیز ملاحظہ ہو:کتاب ’’ السنۃ ‘‘ للإمام المروزي ص ۴۱؛ ونیل المرام من تفسیر آیات الأحکام ص ۱۷۴۔۱۷۸)۔