کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 140
’’ اور اس کو چھوڑ دو،جو وہ سمجھتے نہیں۔‘‘ ۲: امام مسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ بلاشبہ انہوں نے فرمایا: ’’مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لَا تَبْلُغُہُ عُقُوْلُھُمْ اِلاَّ کَانَ لِبَعْضِھِمْ فِتْنَۃٌ۔‘‘[1] ’’ تم کسی قوم کے سامنے ان کی عقل سے بالا بات بیان نہیں کرتے،مگر وہ ان میں سے بعض کے لیے [باعث] فتنہ ہوتی ہے۔‘‘ ۳:علامہ خطیب بغدادی نے ابوقلابہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ لَا تُحَدِّثِ الْحَدِیْثَ مَنْ لَا یَعْرِفُہُ،فَإِنَّ مَنْ لَا یَعْرِفُہُ یَضُرُّہُ وَلَا یَنْفَعُہُ۔‘‘[2] ’’ اس شخص کے روبرو حدیث بیان نہ کیجیے،جو اس کو سمجھتا ہی نہیں،کیونکہ ایسا کرنا اس کے لیے ضرر رساں ہوگا،مفید نہیں ہوگا۔‘‘ خلاصۂ گفتگو یہ ہے،کہ سلف صالحین دعوت اور تعلیم و تربیت میں لوگوں کے حالات کا خیال رکھتے اور اسی بات کی تاکید دوسرے لوگوں کو کرتے۔[3] تنبیہ: بسااوقات داعی کو ایک ہی مقام پر بیک وقت مختلف قسم کے لوگوں سے گفتگو کرنا
[1] صحیح مسلم،المقدمۃ،باب النہي عن الحدیث بکل ما سمع،۱؍ ۱۱۔ [2] الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع،رقم الروایۃ ۷۲۸،۱؍۳۲۷۔ [3] اس بارے میں تفصیلی معلومات کے لیے کتاب [من صفات الداعیۃ:مراعاۃ أحوال المخاطبین] ص۱۱۹۔۱۵۳ ملاحظہ فرمائیے۔