کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 135
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اِبْنُ أُخْتُ الْقَوْمِ مِنْھُمْ۔‘‘
’’ قوم [ یعنی قوم میں سے کسی ایک] کی بہن کا بیٹا ان میں سے ہوتا ہے۔‘‘
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ إِنَّ قُرَیشًا حَدِیْثُ عَہْدٍ بِجَاھِلِیَّۃٍ … الحدیث۔‘‘ [1]
’’ بلاشبہ قریش نئے نئے جاہلیت [سے پلٹے ہیں] … الحدیث ‘‘
حافظ ابن حجر اس قصہ کے متعلق تحریر کرتے ہیں:
’’ وَفِیْہِ جَوَازُ تَخْصِیْصِ بَعْضِ الْمُخَاطَبِیْنَ فِيْ الْخُطْبَۃِ۔‘‘[2]
’’ اس میں بعض مخاطبین کو خطبہ میں مخصوص کرنے کا جواز ہے۔‘‘
خلاصۂ گفتگو یہ ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض مسائل اور باتوں کی خبر مخصوص لوگوں تک محدود رکھتے تھے۔اور اس سے بلاشک و شبہ یہ بات عیاں ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعوت اور تعلیم و تربیت میں مخصوص لوگوں کے حالات اور مسائل کو پیش نظر رکھتے تھے۔[3]
(۳)
سلف صالحین کا لوگوں کے حالات کا خیال رکھنا
سلف صالحین اپنے مخاطب لوگوں کے حالات کا خصوصی خیال رکھتے۔ان کی دعوتی
[1] ملاحظہ ہو:جامع الترمذي،أبواب المناقب،في فضل الأنصار وقریش،رقم الحدیث ۴۱۵۶،۱۰؍۲۷۵۔شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(صحیح سنن الترمذي ۳؍۲۴۶)؛ امام بخاری نے اس کو اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب المناقب،باب ابن اخت القوم منہم،رقم الحدیث ۳۵۲۸،۶؍۵۵۲)۔
[2] فتح الباري ۸؍ ۵۲۔
[3] اس بارے میں مزید تفصیل کتاب [من صفات الداعیۃ:مراعاۃ أحوال المخاطبین] ص ۳۳۔۱۱۷ ملاحظہ فرمائیے۔