کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 128
منع کردیا۔تو جس شخص کو آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی،وہ بوڑھا تھا،اور جس کو روکا تھا،وہ جوان تھا۔‘‘
۳: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عام لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ طیبہ سکونت کرنے کی ترغیب دیتے،لیکن جب ایک بدو نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرکے آنے کی اجازت طلب کی،تو اس کو اپنے وطن ہی میں رہنے کا حکم دیا۔امام مسلم نے حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ ایک بدو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق پوچھا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ وَیْحَکَ!إِنَّ شَأْنَ الْھِجْرَۃِ لَشَدِیْدٌ،فَھَلْ لَکَ مِنْ إِبِلِ؟ ‘‘[1]
’’ تیرا ستیاناس!بلاشبہ ہجرت کا معاملہ یقینا سخت ہے،تو کیا تیرے اونٹ ہیں؟ ‘‘
’’ جی ہاں ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ فَاعْمَلْ مِنْ وَرَائِ الْبِحَارِ،فَإِنَّ اللّٰہَ لَنْ یَتِرَکَ عَمَلَکَ شَیْئًا۔‘‘
’’ تم بستیوں سے دور رہتے ہوئے [ہی] عمل کرو،[2] کیوں کہ بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے عمل میں سے کوئی چیز کم نہیں کریں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم،عمومی حکم کے برعکس،بدو کے حالات کے پیش نظر
[1] صحیح مسلم،کتاب الإمارۃ،باب المبایعۃ بعد فتح مکۃ علی الإسلام والجہاد والخیر …،رقم الحدیث ۸۷۔(۱۸۶۵)،۳؍۱۴۸۸۔
[2] البحار سے یہاں مراد بستیاں ہیں۔(ملاحظہ ہو:شرح النووي ۱۳؍۹) اور مراد یہ ہے،کہ تم شہروں سے دور رہتے ہوئے یعنی مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کیے بغیر اپنے ٹھکانے پر ہی نیک اعمال کرتے رہو۔واللہ تعالیٰ أعلم۔