کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 127
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:’’ نَعَمْ ‘‘ ’’ ہاں۔‘‘ (یہ سن کر) ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إِنَّ الشَّیْخَ یَمْلِکُ نَفْسَہُ۔‘‘[1] ’’ بلاشبہ بوڑھے کو اپنے آپ پر قابو ہوتا ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جوان اور بوڑھے کے روزہ کی حالت میں بوسہ دینے کے متعلق فتویٰ میں اختلاف دونوں کے حالات میں اختلاف کی بنا پر تھا۔جوان آدمی اپنے جذبات پر بوڑھے شخص کی طرح کنٹرول نہیں کرسکتا۔ ۲:امام ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے: ’’ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم عَنِ الْمُبَاشَرَۃِ لِلصَّائِمِ فَرَخَّصَ لَہُ،وَأَتَاہُ آخَرُ،فَسَأَلَہُ فَنَھَاہُ،فَإِذَا الَّذِيْ رَخَّصَ لَہُ شَیْخٌ،وَالَّذِيْ نَھَاہُ شَابٌ۔‘‘[2] ’’ بلاشبہ ایک شخص نے روزے دار کے مباشرت [3] کرنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،تو آپ نے اس کو اجازت دی۔پھر ایک دوسرے شخص نے حاضر ہو کر اس بارے میں سوال کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو
[1] المسند ۲؍ ۱۸۵۔حافظ ہیثمی نے حدیث کو [حسن] اور شیخ البانی نے شواہد کی بنا پر [قوی] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:مجمع الزوائد ۳؍ ۱۶۶؛ وسلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۴؍ ۱۳۸)۔ [2] سنن أبي داود،کتاب الصیام،رقم الحدیث ۲۳۸۴،۷؍۱۰۔شیخ البانی نے اس کو [حسن صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن أبي داود ۲؍۴۴۳)۔ [3] یہاں مباشرت سے مراد ازدواجی تعلقات نہیں،بلکہ ان کے بغیر جسموں کا باہمی ملانا ہے۔(ملاحظہ ہو:النہایۃ في غریب الحدیث والأثر،مادہ ’’ بشر ‘‘،۱؍ ۱۲۹)۔