کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 125
’’ جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ حضرت ابوامامۃ رضی اللہ عنہ کے نصیحت طلب کرنے پر فرمایا: ’’ عَلَیْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَا مِثْلَ لَہُ۔‘‘[1] ’’ روزہ کو لازم کرو،کیونکہ وہ بے مثال ہے۔‘‘ ایک اور شخص کے وصیت طلب کرنے پر فرمایا: ’’ لَا تَغْضَبْ۔‘‘ ’’ غصہ نہ کرو۔‘‘ اس شخص نے بار بار اپنی فرمائش کو دہرایا،لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ لَا تَغْضَبْ۔‘‘ ’’ غصہ نہ کرو۔‘‘ سے زیادہ کچھ نہ فرمایا۔[2] ایک اور شخص کے وصیت طلب کرنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عَلَیْکَ بِالْإِیَاسِ مِمَّا فِيْ أَیْدِیِ النَّاسِ،وَإِیَّاکَ وَالطَّمَعَ فَإِنَّہُ الْفَقْرُ الْحَاضِرُ،وَصَلِّ صَلَا تَکَ وَأَنْتَ مُوَدَّعٌ،وَإِیَّاکَ وَمَا تَعْتَذِرُ مِنْہُ۔‘‘[3] ’’ جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے،اس سے امید توڑ لو،لالچ سے بچو،کیونکہ وہ بجائے خود فقیری ہے۔اپنی نماز اس طرح ادا کرو،کہ تمہیں الوداع کیا جارہا ہے۔اور اس سے دور رہو،جس کی بنا پر [بعد میں] معذرت کرنی
[1] ملاحظہ ہو:سنن النسائي،کتاب الصیام،فضل الصیام،۴؍۱۶۵۔شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح الترغیب والترہیب ۱؍ ۴۸۵)۔ [2] ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب الأدب،باب الحذر من الغضب،رقم الحدیث ۶۱۱۶،۱۰؍ ۵۱۹۔ [3] ملاحظہ ہو:المسند ۴؍۳۰۵۔حافظ ہیثمی نے اس کے راویان کو [ثقہ] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:مجمع الزوائد ۴؍ ۲۱۶۔)