کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 124
(۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت و تربیت میں لوگوں کے حالات کا خیال رکھنا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعوت اور تعلیم و تربیت میں اپنے مخاطب لوگوں کے حالات کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔اس سلسلے میں توفیق الٰہی سے ذیل میں سیرت مطہرہ کے حوالے سے تین پہلوؤں سے گفتگو کی جارہی ہے: ا:وصایا مبارکہ میں تنوع: دعوت و تربیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کے احوال و مسائل کا خیال رکھنے کی ایک دلیل یہ ہے،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف حضرات صحابہ کے وصیت طلب کرنے پر ایک ہی طرح کی وصیت نہ فرماتے،بلکہ ہر آنے والے کو اس کی حالت کے مطابق وصیت فرماتے۔ حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کے وصیت طلب کرنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’ قُلْ:آمَنْتُ بِاللّٰہِ فَاسْتَقِمْ۔‘‘[1] ’’ تم کہو:میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لایا،پھر استقامت اختیار کرو۔‘‘ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے وصیت طلب کرنے پر فرمایا: ’’ اتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُ مَا کُنْتَ أَوْ أَیْنَمَا کُنْتَ۔‘‘[2]
[1] ملاحظہ ہو:صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب جامع أوصاف الإیمان،رقم الحدیث ۶۲(۳۸) عن سفیان ابن عبداللہ الثقفي رضی اللّٰہ عنہ،۱؍ ۶۵۔ [2] ملاحظہ ہو:المسند ۵؍۲۳۸۔(ط۔المکتب الإسلامی)۔شیخ البانی نے اس کو [حسن] قرار دیا ہے۔ملاحظہ ہو:صحیح جامع الصغیر وزیادتہ رقم الحدیث ۹۶،۱؍۸۶۔