کتاب: دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے - صفحہ 110
سیرتوں میں اس کے متعلق کثیر تعداد میں شواہد اور مثالیں موجود ہیں۔توفیق الٰہی سے اس بارے میں درج ذیل چار عنوانوں کے ضمن میں گفتگو کی جارہی ہے: ا: سابقہ انبیاء علیہم السلام کا دعوت میں لوگوں کے حالات کو پیش نظر رکھنا ب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت و تربیت میں لوگوں کے حالات کا خیال رکھنا ج: سلف صالحین کا لوگوں کے حالات کا خیال رکھنا د: دعوت توحید میں مداہنت نہیں (ا) سابقہ انبیاء علیہم السلام کا دعوت میں لوگوں کے حالات کو پیش نظر رکھنا حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی امت کے لوگوں کو دعوتِ توحید و رسالت دینے کے بعد،ان باتوں کی دعوت دینے کا اہتمام کرتے،جن کی انہیں ضرورت ہوتی۔توفیق الٰہی سے اس بارے میں ذیل میں چار انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے تفصیل پیش کی جارہی ہے: ا:ہود علیہ السلام کا قوم کو بے جا مال خرچ کرنے اور ظلم سے روکنا: قومِ عاد دولت مند اور طاقت ور لوگ تھے۔قوت و طاقت میں ان ایسی کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی تھی۔ان کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا: {أَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ۔إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۔الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلاَدِ۔} [1]
[1] سورۃ الفجر؍ الآیات ۶۔۸۔شیخ سعدی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں:{أَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ} اور وہ یمن میں ارم نامی معروف قبیلہ ہے۔{ذَاتِ الْعِمَادِ} یعنی وہ شدید قوت و جبروت والے تھے۔قوت و شدت میں ان ایسا تمام شہروں میں سے کسی میں بھی پیدا نہیں کیا گیا۔اسی طرح ان کے نبی ہود علیہ السلام نے ان سے کہا:{وَاذْکُرُوْا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصطَۃً فَاذْکُرُوْا اٰلَآئَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔}(سورۃ الاعراف؍ جزء من الآیۃ ۶۹)۔’’ اور یاد کرو جب اس نے تمہیں نوح۔علیہ السلام۔کی قوم کے بعد جانشین بنایا اور تمہیں ڈیل ڈول میں زیادہ پھیلاؤ دیا۔سو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کرو،تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘