کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 98
آپس میں سمجھتے سمجھاتے دیکھا۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا:
’’وَیْحَکُمْ! فَذَاکَ مِیْرَاثُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘[1]
’’تم پر افسوس! وہی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے۔‘‘
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے، کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بازار میں کھڑے ہوکر لوگوں کو نماز پڑھنے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور حلال و حرام کے مسائل سمجھنے سمجھانے کی خاطر مسجد میں جانے کی تلقین کی۔ فرضي اللہ عنہ وأرضاہ۔
اس واقعہ میں دیگر دو فائدے:
۱: مذکورہ بالا اعمال کی غرض سے مسجد میں جانے کی عظمت۔
۲: ان اعمال کی رغبت دلانے کے لیے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا زور دار اور موثر اسلوب۔
اس بارے میں دیگر دو شواہد:
۱: بازار تشریف لانے پر تاجروں کو جھوٹ سے بچنے کا حکم۔[2]
۲: عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں تاجروں کو تقویٰ، نیکی اور سچ گوئی کی تلقین۔[3]
****
[1] منقول از:الترغیب والترہیب، کتاب العلم، الترغیب فی العلم…، رقم الحدیث ۳۹، ۱/۱۰۳۔۱۰۴؛ ومجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب العلم، باب في فضل العالم والمتعلم، ۱/۱۲۳۔۱۲۴۔ حافظ منذری اور حافظ ہیثمی نے لکھا ہے، کہ اسے طبرانی نے [المعجم] الاوسط میں [سند حسن] کے ساتھ روایت کیا ہے۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:الترغیب والترہیب ۱/۱۰۴؛ ومجمع الزوائد ۱/۱۲۴؛ وصحیح الترغیب والترہیب ۱/۱۴۴)۔
[2] تفصیل اور حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو:’’دعوتِ دین کسے دیں ؟‘‘ ص:۱۸۰۔ ۱۸۱۔
[3] تفصیل اور حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو:المرجع السابق ص۱۸۱۔۱۸۲۔