کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 83
مَسْجِدِہِمْ، فَانْتَہِ عَنْ ذٰلِکَ۔‘‘
’’بے شک آپ کے چچیرے سمجھتے ہیں، کہ آپ ان کی اجتماع گاہ اور مسجد میں انہیں اذیت دیتے ہیں، سو آپ اس سے باز آجائیے۔‘‘
انہوں(عقیل رضی اللہ عنہ)نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہ کو آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا:
’’أَتَرَوْنَ ہٰذِہِ الشَّمْسَ؟‘‘
’’کیا آپ لوگ اس سورج کو دیکھ رہے ہیں ؟‘‘
انہوں نے کہا:’’ہاں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا أَنَا بَأَقْدَرَ عَلٰی أَنْ أَدَعَ لَکُمْ ذٰلِکَ عَلٰی أَنْ تَسْتَشْعِلُوْا لِيْ مِنْہَا شُعْلَۃً۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کے لیے اسے چھوڑنے کی اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتا، جتنی آپ میرے لیے اس(سورج)سے شعلہ روشن کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘[1]
انہوں نے بیان کیا:’’ابوطالب نے کہا:
’’مَا کَذَبَنَا ابْنُ أَخِيْ، فَارْجِعُوْا۔‘‘[2]
[1] اس سے مراد یہ ہے، کہ نہ تم لوگ میرے لیے سورج سے شعلہ روشن کرسکتے ہو اور نہ ہی میں تمہاری خاطر دعوتِ حق کو چھوڑ سکتا ہوں۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔
[2] مسند ابي یعلی الموصلی، رقم الحدیث ۱۸۔(۶۸۰۴)، ۱۲/۱۷۶۔ حافظ ہیثمی نے اس کے راویوں کو [صحیح کے راویان] قرار دیا ہے، حافظ ابن حجر نے اس کی [سند کو صحیح] اور شیخ حسین سلیم اسد نے اسے قوی کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:مجمع الزوائد ۶/۱۵؛ وہامش مسند أبی یعلی ۱۲/۱۷۶۔ ۱۷۷)۔ اسی روایت کو امام بیہقی نے دلائل النبوۃ اور امام طبرانی نے المعجم الاوسط اور الکبیر میں روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۱۲/۱۷۷)۔