کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 79
أَنَّ غُلَامًا یَہُوْدِیًّا کَانَ یَخْدُمُ النَّبِيَّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم، فَمَرِضَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم لِأَصْحَابِہِ:’’اذْہَبُوْا بِنَا إِلَیْہِ نَعُوْدُہ۔‘‘ فَأَتُوْہُ، وَأَبُوْہُ قَاعِدٌ عِنْدَ رَأْسِہِ… الحدیث[1] بے شک ایک یہودی لڑکا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا:’’ہمیں اس کی عیادت کے لیے لے چلو۔‘‘ چنانچہ وہ(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ)اس کے پاس تشریف لائے، اور اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا… الحدیث اس واقعہ میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ہمراہ بیمار یہودی لڑکے کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اسے دعوتِ اسلام دی۔ اس واقعہ میں دیگر پانچ فوائد: ۱: عیات کے دوران بیمار کو دعوت دینے کا اہتمام۔[2] ۲: دعوت اسلام کے مشن میں ساتھیوں کو شریک کرنا۔ ۳: یہود کو دعوتِ اسلام دینے کا اہتمام۔[3] ۴: بچے کو دعوتِ اسلام دینے کا اہتمام۔[4] ۵: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال تواضع۔[5]
[1] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الجنائز، باب المریض وما یتعلق بہ، ذکر جواز عیادۃ المرء أہل الذمۃ إذا طمع في إسلامہم، جزء من رقم الحدیث ۲۹۶۰، ۷/۲۲۷۔ [2] اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے [دعوت دین کسے دیں ؟] ص ۱۷۳ - ۱۷۷۔ دیکھئے۔ [3] اس بارے میں تفصیل کے لیے المرجع السابق ص ۱۱۴ - ۱۲۱ ملاحظہ ہو۔دیکھئے۔ [4] اس بارے میں تفصیل کے لیے المرجع السابق ص ۱۶۸ -۱۷۲۔دیکھئے۔ [5] اس بارے میں تفصیل کے لیے دیکھئے:[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم] ص:۳۲۵۔۳۳۳۔