کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 77
’’اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم ! یقینا آپ نے(پیغامِ الٰہی)پہنچا دیا ہے۔‘‘
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا اور(مزید یہ بات بھی)ارشاد فرمائی:
’’اِعْلَمُوْا أَنَّ الْأَرْضَ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہِ، وَإِنِّيْ أُرِیْدُ أَنْ أُجْلِیَکُمْ۔ فَمَنْ وَجَدَ مِنْکُمْ بِمَالِہِ شَیْئًا فَلْیَبِعْہُ، وَاِلَّا فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہِ۔‘‘[1]
’’جان لو، کہ بے شک ساری زمین اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور بے شک میں تمہیں جلا وطن کرنے کا ارادہ کر رہا ہوں، سو تم میں سے جو کوئی اپنے اثاثے کے بدلے میں کچھ پائے، تو وہ اسے فروخت کرلے۔ بصورتِ دیگر خوب اچھی طرح سمجھ لو، کہ بے شک ساری زمین اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔‘‘
اس حدیث سے یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے سربرآوردہ شخص کے گھر تشریف لے جاکر اسے دعوتِ اسلام دی:
اس حدیث میں دیگر چار فوائد:
۱: دعوتی کاموں میں ساتھیوں کو شریک کرنا۔
۲: اسلام کا آفاقی دین ہونا۔[2]
۳: یہودیوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و حقانیت سے آگاہ ہونا۔
۴: دعوتِ دین میں تکرار۔[3]
[1] صحیح البخاري، کتاب الإکراہ، باب في بیع المکرہ ونحوہ في الحق وغیرہ، رقم الحدیث ۶۹۴۴، ۱۲/۳۱۷۔
[2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:راقم السطور کی کتاب:دعوت دین کسے دیں ؟
[3] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم‘‘ ص ۱۵۴۔۱۷۲۔