کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 72
لَہُ وِسَادَۃً مَنْ أَدَمَ حَشْوُہَا لِیْفٌ۔ فَجَلَسَ عَلَی الْأَرْضِ، وَصَارَتِ الْوِسَادَۃُ بَیْنِيْ وَبَیْنَہُ۔‘‘ ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو میرے روزوں کا ذکر کیا گیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا ایک تکیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رکھا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے اور تکیہ میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوگیا۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَمَا یَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ؟‘‘ ’’کیا تمہارے لیے ہر ماہ سے تین دن(کا روزہ رکھنا)کافی نہیں ؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔!‘‘[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خَمْسًا؟‘‘ ’’پانچ؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔!‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سَبْعًا؟‘‘ ’’سات؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔!‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تِسْعًا؟‘‘ ’’نو؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔!‘‘
[1] حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ازراہِ ادب [یا رسول اللہ!] کہنے کے بعد کچھ کہہ نہ سکے، لیکن ان کا مقصود یہ تھا، کہ ہر ماہ میں تین روزے رکھنے میرے لیے کافی نہیں ہیں۔