کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 66
سے اپنے ہاتھوں کو پھیلایا۔‘‘
پھر انہوں نے فرمایا:
’’اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ۔‘‘
’’اے اللہ! گواہ ہوجائیے۔‘‘
انہوں نے بیان کیا:
’’وَأَمَرَنَا بِالْعِیْدِ، وَأَنْ نُخْرِجَ فِیْہِ الْحُیَّضَ وَالْعُتَّقَ، وَلَا جُمْعَۃَ عَلَیْنَا، وَنَہَانَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَازَۃِ۔‘‘[1]
’’انہوں نے ہمیں عید(میں حاضر ہونے)کا حکم دیا، اور یہ کہ ہم اس موقع پر مخصوص ایام والی اور جوان لڑکیوں کو[بھی] لے کر جائیں اور(انہوں نے واضح کیا، کہ)ہم پر جمعہ[فرض] نہیں اور انہوں نے ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے منع کیا۔‘‘
اس حدیث میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری خواتین کو ایک گھر میں جمع ہونے کا حکم دیا اور پھر سورۃ ممتحنہ کی [آیت] میں ذکر کردہ محرمات سے دور رہنے کی بیعت لینے اور کچھ دیگر مسائل بیان کرنے کی غرض سے عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف بھیجا۔
اس واقعہ میں دیگر سات فوائد:
۱: خواتین کی تعلیم و تربیت اور انہیں وعظ و نصیحت کے لیے الگ اور مستقل نشست کا
[1] المسند، ۵/۸۵ و ۶/۴۰۸۔۴۰۹(ط:المکتب الإسلامي)؛ ومسند أبي یعلی الموصلي، رقم الحدیث ۸۷۔(۲۲۶)، ۱/۱۹۶۔۱۹۷؛ وصحیح ابن خزیمۃ، کتاب الجمعۃ، باب ذکر إسقاط الجمعۃ علی النساء…، رقم الحدیث ۱۷۲۲، ۳/۱۱۲؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الجنائز، فصل في حمل الجنازۃ وقولہا، ذکر الزجر عن اتباع النساء الجنائز والخروج إلیہا لہن، رقم الحدیث ۳۰۴۱، ۷/۳۱۳۔۳۱۴۔ الفاظِ حدیث صحیح ابن حبان کے ہیں۔ حافظ ہیثمی نے اس کے راویوں کو [ثقہ] اور شیخ حسین سلیم اسد نے مسند ابی یعلی کی [سند کو حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:مجمع الزوائد ۶/۳۸؛ وہامش أبي یعلی ۱/۱۹۷)۔