کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 62
ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا:
’’أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِب؟‘‘[1]
’’کیا آپ عبد المطلب کے دین سے پھر جائیں گے؟‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے:
فَلَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم یَعْرِضُہَا عَلَیْہِ، وَیَعُوْدَانِ بِتِلْکَ الْمَقَالَۃِ، حَتّٰی قَالَ أَبُوْطَالِبٍ آخِرَ مَا کَلَّمَہُمْ:’’ہُوَ عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔‘‘
وَأَبٰی أَنْ یَقُوْلَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ…الحدیث[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ان پر اسے(یعنی کلمہ توحید)پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ ابوطالب کے آخری الفاظ یہ تھے:’’وہ عبد المطلب کے دین پر ہے۔‘‘
اور انہوں نے [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ] کہنے سے انکار کردیا۔… الحدیث۔
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعوت توحید دینے کی غرض سے اپنے چچا کے ہاں تشریف لے گئے۔
اس واقعہ میں دیگر آٹھ فوائد:
۱: مخاطب[3] کی زندگی کے آخری لمحات تک اسے دعوتِ دین دینا۔
۲: چچا اور اسی طرح باپ، بلکہ والدین کو دعوتِ دین، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے
[1] متفق علیہ:صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ برائۃ، باب(ما کان للنبيوالذین آمنوا أن یستغفروا للمشرکین)، جزء من رقم الحدیث ۴۶۷۵، ۸/۳۴۱؛ وصحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت ما لم یشرع في النزع…، رقم الحدیث ۳۹۔(۲۴)، ۱/۵۴۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔
[2] صحیح البخاري، کتاب الجنائز، باب إذ قال المشرک عند الموت:’’لا إلہ إلا اللّٰه‘‘، جزء من رقم الحدیث ۱۳۶۰، ۳/۲۲۲۔
[3] یعنی جسے دعوت دی جاتی یا جس کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے۔