کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 61
میں اسلام میں ساتویں شخص کا بیٹا ہوں۔ میرے والد دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے ساتویں شخص تھے۔ ان کا گھر مکہ(مکرمہ)میں(کوہ)صفا پر تھا۔ وہ وہی گھر ہے، جس میں ابتدائے اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں لوگوں کو دعوتِ اسلام دی اور اس میں بہت لوگ مسلمان ہوئے… دار ارقم کو دار الاسلام کا نام دیا گیا۔ ج:قریب المرگ چچا کے گھر دعوت توحید دینے کی خاطر جانا: امام بخاری اور امام مسلم نے سعید بن مسیب کے حوالے سے ان کے باپ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ دَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِيُّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم، وَعِنْدَہُ أَبُوْجَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِيْ أُمَیَّۃَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم: ’’أَيْ عَمِّ! قُلْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، أُحَاجُّ لَکَ بِہَا عِنْدَ اللّٰہِ۔‘‘ ’’جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں داخل ہوئے۔ ان کے پاس ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے چچا(جان)! آپ [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ] کہیے، میں اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کے لیے جھگڑا کروں گا۔‘‘[1]
[1] یعنی میں اسے بار گاہِ الٰہی میں آپ کے لیے بطورِ حجت پیش کروں گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے:’’أَشہْدُ لَکَ بِہَا عِنْدَ اللّٰہِ ‘‘(صحیح البخاري، کتاب الجنائز، باب إذا قال المشرک عند الموت، لا إلٰہ إلا اللّٰہ، جزء من رقم الحدیث ۱۳۶۰، ۳؍ ۲۲۲)۔[میں اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کے لیے گواہی دوں گا۔]