کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 57
گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بدترین دشمنوں کو بھی دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے کس قدر حریص تھی فصلوات ربي وسلامہ علیہ! اے اللہ کریم! ہمیں بھی یہ حرص عطا فرمائیے۔ إنک سمیع مجیب۔
اس واقعہ میں دیگر نو فوائد:
۱: اسلام کا عالمگیر مذہب ہونا۔[1]
۲: دعوتِ دین کی جدوجہد میں ساتھیوں کو شریک کرنا۔
۳: دعوتِ دین میں مخاطبین کو ان کے لقب سے پکارنا۔
۴: اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے [اسلوب ترغیب] استعمال کرنا۔
۵: غیر مسلموں کو دعوت دین دینے کا آغاز توحید ورسالت کی شہادت کے اقرار کرنے کی تلقین کے ساتھ سے کرنا۔[2]
۶: دعوتِ دین دیتے ہوئے بات کا تکرار کرنا۔[3]
۷: لوگوں کی ہدایت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید خواہش اور بے مثال جستجو۔
۸: یہود کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور حقانیت سے آگاہی۔
۹: یہودیوں کا عناد اور افترا پردازی۔
-۵-
گھروں میں دعوتِ دین
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھروں میں دعوتِ دین کا اہتمام فرماتے۔ بسا اوقات غیر مسلموں کو دعوتِ اسلام دینے کی غرض سے ان کے ہاں تشریف لے جاتے۔ کسی
[1] تفصیل کے لیے دیکھئے:راقم السطور کی کتاب:’’دعوتِ دین کسے دیں ؟‘‘
[2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:’’دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے؟‘‘ ص ۵۱۔۱۰۸۔
[3] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم‘‘ ۱۵۵۔