کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 56
بات ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘ انہوں(راوی)نے بیان کیا:’’ہم(وہاں سے)نکلے، تو تین تھے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، میں اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور اللہ عزوجل نے ان کے بارے میں یہ(آیت)نازل فرمائی: {قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہٖ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ بَنِیْٓ اِِسْرَآئِیلَ عَلٰی مِثْلِہٖ فَاٰمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ اِِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظٰلِمِیْنَ[1]} [2] [آپ کہیے تم نے غور کیا، اگر یہ(قرآن)اللہ تعالیٰ کی جانب سے(نازل کردہ)ہو اور تم نے اس کا انکار کردیا اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسے(قرآن)کی گواہی دے چکا ہے اور ایمان لاچکا ہے اور تم نے ازراہِ تکبر انکار کردیا ہے(تو تمہارا انجام کیا ہوگا)بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے۔] اس حدیث میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس ایک ساتھی کے ہمراہ یہودیوں کے معبد میں تشریف لے گئے اور انہیں دعوتِ اسلام دی اور انہیں ترغیب دیتے ہوئے، فرمایا، کہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان پر اپنی ناراضی ختم فرما دیں
[1] سورۃ الأحقاف / الآیۃ۔۱۔ [2] المسند، رقم الحدیث ۲۳۹۸۴، ۳۹/۴۰۹۔۴۱۰؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب إخبارہ صلي الله عليه وسلم عن مناقب الصحابۃ، ذکر عبد اللّٰه بن سلام رضی اللّٰه عنہ، رقم الحدیث ۷۱۶۲، ۱۶/۱۱۸۔۱۲۰؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۳/۴۱۵۔ ۴۱۶۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ امام حاکم نے اسے صحیحین کی شرط پر(صحیح)قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے ابن حبان کی(سند کو صحیح)اور المسند کی(سند کو صحیح مسلم کی شرط پر صحیح)کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:المستدرک علی الصحیحین ۳/۴۱۶؛ والتلخیص ۳/۴۱۶؛ وہامش المسند ۳۹/۴۱۰)۔