کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 44
ہمارے مقابلے میں لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ)یا مسلمان ہو کر اپنی جان بچا لو۔ یزد جرد جواب میں بولا: ’’ اِسْتَقْبَلْتَنِيْ بِمِثْلِ ہٰذَا؟ لَوْ لَا أَنَّ الرُّسَلَ لَا تُقْتَلُ لَقَتَلْتُکُمْ۔ لَا شَيْئَ لَکُمْ عِنْدِيْ۔‘‘ [1] ’’تم نے میرے روبرو ایسی گفتگو کی ہے ؟ اگر قاصدوں کو قتل نہ کرنے کا دستور نہ ہوتا، تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔ تمہارے لیے میرے ہاں کوئی چیز نہیں۔‘‘ اس واقعہ میں واضح ہے، کہ نعمان بن مقرن اور مغیرہ بن زرارہ رضی اللہ عنہما نے شاہ فارس یزد جرد کے دربار میں دعوتِ دین دی۔فرضي اللّٰہ عنہما و أرضاہما۔ اے رب ذوالجلال ہم ناکاروں کو بھی یہ جذبہ اور ہمت عطا فرمایئے۔ إنَّک سمیعٌ مجیب۔ اس واقعہ میں دیگر دس فوائد: ۱۔ دینِ حق قبول کرنے سے دنیا و آخرت کی خیر کا میسر آنا۔ ۲۔ قبولِ اسلام کی برکت سے اہل عرب کی حالت میں ناقابل تصور تبدیلی۔ ۳۔ دعوت کا آغاز پڑوسیوں سے ہونا۔ ۴۔ اسلام عدل و انصاف کا داعی۔ ۵۔ دینِ حق کا اچھی چیزوں کو اچھا اور بُری باتوں کو بُرا قرار دینا۔
[1] ملاحظہ ہو:البدایۃ والنہایۃ ۹؍۶۲۵۔۶۲۸؛ نیز ملاحظہ ہو:تاریخ الطبري ۳؍۴۹۷۔۵۰۱؛ و کتاب الفتوح ۱؍۱۵۶۔۱۵۹؛ والکامل ۲؍۳۱۵۔۳۱۶۔