کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 42
اور ہر برائی کو بُرا قرار دیاہے۔ پس اگر تم نے اس سے انکار کیا، تو شر کی ایک بات ہے، جو کہ شر کی دوسری بات کے مقابلے میں ہلکی ہے(اور وہ بات تمہاری طرف سے)جزیہ(دینا)ہے۔ پس اگر تم نے(اس سے بھی)انکار کیا، تو لڑائی ہے۔ اگر تم نے ہمارے دین کو قبول کر لیا، تو ہم تم میں اللہ تعالیٰ کی کتاب چھوڑ جائیں گے اور تمہیں اس بات کا پابند کریں گے، کہ اس کے احکام کے مطابق فیصلے کرو اور خود واپس چلے جائیں گے اور تم جانو اور تمہارے شہر(یعنی تمہارے معاملات سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہو گا۔) اگر تم نے جزیہ دے کر ہم سے بچنا چاہا، تو ہم اسے قبول کریں گے اور تمہاری حفاظت کریں گے۔ بصورتِ دیگر ہم تم سے لڑیں گے۔ پھر یزدجرد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’إِنيْ لَا أَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ أُمَّۃً کَانَتْ أَشْقَی، وَلَا أَقَلَّ عَدَدًا، وَلَا أَسْوَأَ ذَاتِ بَیْنٍ مِنْکُمْ۔‘‘ ’’بے شک میں روئے زمین پر کسی بھی ایسی اُمت کو نہیں جانتا، جو تم سے زیادہ بد نصیب، تعداد میں تم سے کم اور باہمی جھگڑوں میں تم سے بدتر ہو۔‘‘ وفد کے لوگ خاموش رہے، تو مغیرہ بن زرارہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: أَیُّہَا الْمَلِکُ! إِنَّکَ قَدْ وَصَفْتَنَا صِفَۃً لَمْ تَکُنْ بِہَا عَالِمًا۔ فَأَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ سُوْئِ الْحَالِ، فَمَا کَانَ أَسْوَأَ حَالًا مِنَّا… اے بادشاہ! تم نے ہمارا جو وصف بیان کیا ہے، تمہیں تو اس کا علم نہیں تھا۔ تم نے(ہماری جس)بُری صورتِ حال کا ذکر کیا ہے، تو ہم سے بدتر