کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 38
مَرْحَبًا بِکُمْ وَبِمَنْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِہِ! أَشْہَدُ أَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم فَإِنَّہُ الَّذِيْ نَجِدُ فِي الْإِنْجِیْلِ، وَإِنَّہُ الرَّسُوْلِ الَّذِيْ بَشَّرَ بِہِ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِمَا السَّلَام… اِنْزِلُوْا حَیْثُ شِئْتُمْ، وَاللّٰہ! لَوْ لَا مَا أَنَا فِیْہِ مِنَ الْمُلْکِ لَأَتَیْتُہُ حَتَّی أَکُوْنَ أَنَا أَحْمِلُ نَعْلَیْہِ وَأُوَضِّئُہُ۔‘‘ ’’اے حبشہ والو! پادریوں اور درویشو! واللہ! ہم اس کے بارے میں جو کہتے ہیں، انہوں نے اس لکڑی کے برابر بھی اس میں اضافہ نہیں کیا۔ تمہیں اور جن کی طرف سے تم آئے ہو(سب کو)خوش آمدید! میں گواہی دیتا ہوں، کہ بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے رسول۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہیں۔ یقینا وہ وہی ہیں، جنہیں ہم انجیل میں پاتے ہیں اور بلاشبہ وہ وہی رسول ہیں، جن کی بشارت عیسیٰ بن مریم۔ علیہما السلام۔ نے دی۔ تم جہاں چاہو قیام کرو۔ واللہ! اگر میری بادشاہت کی ذمہ داری نہ ہوتی، تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے جوتے اُٹھاتا اور انہیں وضو کرواتا۔‘‘ اس نے دوسرے لوگوں(یعنی قریش)کے ہدیہ کے متعلق حکم دیا، کہ انہیں واپس کر دیا جائے۔‘‘[1]
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۴۴۰۰، ۶؍۱۸۵۔۱۸۶۔(ط:دار المعارف بمصر)۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی [سند کو جید اور قوی] اور متن کو [حسن] قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر اور شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو [حسن] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:البدایۃ والنہایۃ ۳؍۶۹ ؛ و فتح الباري ۳؍۱۸۹ ؛ و ھامش المسند ۶؍۱۸۵)۔ نیز ملاحظہ ہو:صحیح السیرۃ النبویۃ للشیخ الألباني ص ۱۶۴۔۱۷۶۔