کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 30
ج:اہل اسلام کا قید خانوں میں دعوتِ دین دینا:
اسلامی تاریخ میں اس بات کے متعدد شواہد ہیں، کہ دعوتِ دین کی اہمیت سے آگاہ مسلمان قیدیوں نے پس دیوارِ زنداں اسے فراموش نہ کیا، بلکہ اس کا خوب اہتمام کیا۔ اسی بارے میں پروفیسر آرنلڈ تحریر کرتے ہیں:
’’بسا اوقات مسلمان قیدیوں نے اپنے قید کرنے والوں اورقیدی ساتھیوں کو دعوتِ دین دینے کا موقع ضائع نہ کیا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے اس بارے میں درج ذیل مثالیں ذکر کی ہیں:
۱: مشرقی یورپ میں اوّل ہی اوّل اسلام کی اشاعت ایک مسلمان فقیہ کے ذریعہ سے ہوئی، جو بینر نطینی سلطنت اور اس کے مسلمان ہمسایوں کی کسی باہمی جنگ میں قید ہو گیا تھا۔ گیارہویں صدی کے اوائل میں لوگ اسے پکڑ کر پشنگ قوم کے ملک میں لے آئے تھے۔ اس نے ان کے سامنے اسلام کی تعلیم کو پیش کیا۔ انہوں نے اس دین کو سچے دل سے قبول کر لیا اور اسلام ان کے ہاں پھیلنے لگا، لیکن قوم کے دیگر لوگ اپنے ہم وطن لوگوں کے مسلمان ہونے پر بگڑ بیٹھے اور آخر کار ان کے ساتھ لڑ پڑے۔ مسلمانوں نے، جن کی تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی، کفار کا کامیابی سے مقابلہ کیا، اگرچہ ان کی تعداد ان سے دوگنی تھی۔ ہزیمت خورہ لوگوں میں سے جو لوگ بچ رہے، انہوں نے بھی فاتحین کا دین قبول کر لیا۔ چنانچہ گیارہویں صدی کے ختم ہونے سے پہلے تمام قوم مسلمان وہ چکی تھی۔ اس میں ایسے علماء پیدا ہو چکے تھے، جو فقہ اور دینیات میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔
۲: جہانگیر کے عہد میں(۱۶۰۵ء تا ۱۶۲۸ء)شیخ احمد مجدد الف ثانی ایک مشہور سنی عالم گزرے ہیں، انہوں نے شیعہ کے عقائد کی پر زور تردید کی۔ اس زمانے میں شاہی دربار میں شیعوں کا بڑا دخل تھا، چنانچہ ایک فضول سے الزام کی بنا پر شیخ احمد کو قید کر دیا