کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 29
علامہ ابی نے حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے:
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد:’’ اے ثمامہ! تمہارے پاس کیا ہے؟ ‘‘ اور تین دن تک اسے دہراتے رہنا، اس کے اسلام کا طمع کرتے ہوئے تھا اور لوگوں کے اس جیسے سرداروں کو قریب کرنے کی خاطر تھا، تاکہ وہ مسلمان ہو جائے اور اس وجہ سے اس کے پیرو کار دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔‘‘[1]
اس حدیث میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدی ثمامہ بن اثال کو دعوتِ اسلام دی اور وہ توفیقِ الٰہی سے دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔ فصلوٰت ربی وسلامہ علیہ، و رضي اللّٰہ عنہ وأرضاہ۔
اس واقعہ میں دیگر آٹھ فوائد:
۱۔ مسجد کا نماز کے علاوہ دیگر اسلامی مصالح کے لیے استعمال ہونا۔
۲۔ فیصلہ کرنے میں ٹھہراؤ، تحمل اور بردباری۔
۳۔ دعوتِ دین میں تکرار۔
۴۔ دعوتِ حق کا ہدف لوگوں کے مال کی بجائے انہیں داخل اسلام کرنا۔
۵۔ عفو و در گذر کا دعوت میں عظیم الشان اثر۔
۶۔ قبولِ حق کرنے والے کا طعن و تشنیع کا نشانہ بننا۔
۷۔ توحید و رسالت کے سچے اقرار سے ناقابلِ تصور تبدیلیوں کا ظہور۔
۸۔ قبولِ اسلام کے بعد دوستی و دشمنی کا یکسر نیا معیار۔
[1] إکمال إکمال المعلم ۶؍۳۶۲ ؛ نیز ملاحظہ ہو:شرح النووي ۱۲؍۸۹۔