کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 28
چکا ہے۔
واللہ! مجھے کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ ناپسند نہ تھا، اب آپ کا دین میرے نزدیک محبوب ترین دین ہو چکا ہے۔
واللہ! مجھے کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ ناپسند نہ تھا، اب آپ کا شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ پیارا ہے۔
میں عمرے کے ارادے سے جا رہا تھا، کہ آپ کے گھوڑ سواروں نے مجھے پکڑا،(اب)آپ کا(میرے متعلق)کیا ارشاد ہے؟‘‘
’’ فَبَشَّرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم وَأَمَرَہُ أَنْ یَعْتَمِرَ۔‘‘
’’رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور عمرہ کرنے کا حکم دیا۔‘‘
جب وہ مکہ(مکرمہ)آیا، تو کسی کہنے والے نے اسے کہا:’’ تم بے دین ہو چکے ہو؟ ‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’ لَا، وَاللّٰہِ ! وَلٰکِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔
وَلَا، وَاللّٰہِ! لَا یَأتِیْکُمْ مِنَ الْیَمَامَۃِ حَبَّۃُ حِنْطَۃٍ حَتَّی یَأْذَنَ فِیْہَا النَّبِیُّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘
’’نہیں، واللہ! بلکہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان ہوا ہوں۔
نہیں، واللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر تمہیں یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا۔‘‘[1]
[1] متفق علیہ:صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب وفد بني حنیفۃ وحدیث ثمامۃ بن أثال، رقم الحدیث ۴۳۷۲، ۸؍۸۷؛ و صحیح مسلم، کتاب الجہادوالسیر، باب ربط الأسیر وحبسہ، وجواز المن علیہ، رقم الحدیث ۵۹۔(۱۷۶۴)، ۳؍۱۳۸۶۔ ۱۳۸۷۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔