کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 25
الْعَقِیْدَۃِ الْفَاسِدَۃِ وَالْأَوْضَاعِ الْفَاسِدَۃِ۔‘‘ [1]
’’ یوسف علیہ السلام نے اپنے صحیح عقیدے کی اشاعت کے لیے اس موقع سے فائدہ اُٹھایا، ان کا قیدی ہونا غلط عقیدے اور نادرست باتوں کی اصلاح کی ان کی ذمہ داری سے انہیں سبکدوش نہیں کرتا۔‘‘
۴: شیخ ابو بکر الجزائری رقم طراز ہیں:
’’ مِنْ ہِدَایَۃِ الْآیَاتِ اسْتِغْلَالُ الْمُنَاسَبَاتِ لِلدَّعْوَۃِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی کَمَا اسْتَغَلَّہَا یُوْسُفُ عَلَیْہِ السَّلَامِ۔‘‘ [2]
آیات سے حاصل ہونے والی راہ نمائی میں سے(ایک بات)یہ ہے، کہ دعوت الی اللہ عزوجل کے لیے ملنے والے مواقع سے فائدہ اُٹھانا چاہیے، جیسے کہ یوسف علیہ السلام نے اُٹھایا۔
ب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ثمامہ کو دعوتِ اسلام دینا:
امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑ سواروں کا ایک دستہ نجد کی طرف روانہ کیا، وہ بنو حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو(پکڑ)کر لائے۔
انہوں(صحابہ)نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، تو فرمایا:
’’ مَا ذَا عِنْدَکَ یَا ثُمَامَۃُ؟‘‘
[1] في ظلال القرآن ۴؍۱۹۸۸۔
[2] ملاحظہ ہو:أیسر التفاسیر ۲؍۳۹۷۔