کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 24
وَإِصْغَائِہِمَا لِقَوْلِہِ وَاہْتِمَامِہِمَا بِمَا یَسْمَعَانِ مِنْ تَاْوِیْلِہِ لِرُؤاہُمَا، فَبَدَأَ حَدِیْثَہُ بِمَا ہُوَ أَہَمُّ عِنْدَہُ، وَہُوَ دَعْوَتُہُمَا وَسَائِرَ مَنْ فِي السِّجْنِ إِلیٰ تَوْحِیْدِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔
وَحِکْمَتُہُ مِنْ نَاحِیَۃِ دَعْوَۃِ الدِّیْنَ أَنَّ أَقْوَی النَّاسِ وَأَقْرَبَہِمْ اسْتِعْدَادًا لِفَہْمِہَا وَالْاِہْتِدَائِ بِہَا ہُمُ الضُّعَفَائُ وَالْمَظْلُوْمُوْنَ وَالْفُقَرَائُ، وَأَغْنَاہُمْ وَأَبْعَدُہُمْ عَنْ قُبُوْلِہَا ہُمُ الْمُتْرِفُوْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ۔ [1]
یوسف علیہ السلام نے، ان دونوں سوال کرنے والوں کے ان کے علم و فضل کے متعلق اعتماد اور خواب کی تعبیر معلوم کرنے کی خاطر ان کی توجہ اور دھیان سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اپنی گفتگو کا آغاز اس بات سے کیا، جو ان کے نزدیک زیادہ ضروری تھی اور وہ [بات]ان دونوں اور جیل میں موجود باقی لوگوں کو اللہ عزوجل کی توحید کی دعوت کا دینا تھی۔
دعوتی اعتبار سے اس میں حکمت یہ تھی، کہ اس دعوت کے سمجھنے اور قبول کرنے کی استعداد میں سب سے زیادہ مضبوط اور قریب ضعیف، مظلوم اور فقیر لوگ ہوتے ہیں اور اس [دعوت]سے سب سے زیادہ بے پروا اور دور آسائشوں میں زندگی بسر کرنے والے متکبر لوگ ہوتے ہیں۔
۳: سیّد قطب نے قلم بند کیا ہے:
’’ وَیَنْتَہِرُ یُوْسُفُ علیہ السلام ہٰذِہِ الْفُرْصَۃَ لِیَبُثَّ بَیْنَ السُّجَنَائِ عَقِیْدَتَہُ الصَّحِیْحَۃَ، فَکَوْنُہُ سَجِییْنًا لَا یُعْفِیْہِ مِنْ تَصْحِیْحِ
[1] تفسیر المنار ۱۲؍۳۰۴ باختصار ؛ نیز ملاحظہ ہو:الکشاف ۲؍۳۲۰ ؛ و تفسیر القاسمي ۹؍۲۲۶۔