کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 130
’’پس اگر مجھے چھوڑا نہ جائے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فَأْتِ مَنْ أَنْتَ مِنْہُمْ، فَکُنْ فِیْہِمْ۔‘‘ ’’جن سے تم ہو، ان کے ہاں چلے جانا اور انہی میں رہنا۔‘‘ انہوں نے پوچھا:’’فَآخُذُ سَلَاحِيْ؟‘‘ ’’میں اپنے ہتھیار اٹھالوں ؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’إِذَا تُشَارِکُہُمْ فِیْمَاہُمْ فِیْہِ، وَلٰکِنْ إِنْ خَشِیْتَ أَنْ یَرُوْعَکَ شُعَاعُ السَّیْفِ، فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِکَ عَلٰی وَجْہِکَ، حَتَّی یَبُوْئَ بِاِثْمِہِ وَإِثْمِکَ۔‘‘[1] ’’پھر تم(بھی ان کے گناہ میں)ان کے ساتھ شریک ہوجاؤ گے، لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو، کہ تلوار کی چمک تمہیں خوفزدہ کرے گی، تو تم اپنے چہرے پر اپنی چادر کا کنارہ ڈال لینا، یہاں تک کہ وہ(یعنی تمہارا قاتل)اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے۔‘‘ اس حدیث سے یہ واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے پر سواری کی حالت میں راستے سے گزرتے ہوئے ابوذر رضی اللہ عنہ کے لیے ناگہانی حالات میں اختیار کیا جانے والا پسندیدہ طرزِ عمل بیان فرمایا۔ فصلوات ربي وسلامہ علیہ۔
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۱۳۲۵، ۳۵/۲۵۲؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب التاریخ، باب إخبارہ صلي الله عليه وسلم عما یکون في أمتہ من الفتن والحوادث، ذکر البیان بأن فتح اللّٰه جل وعلا الدنیا علی المسلمین إنما ذٰلک بعقب جدب یلحقہم، رقم الحدیث ۶۶۸۵، ۱۵/۷۸۔۷۹۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو مسلم کی شرط پر صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:ھامش المسند ۳۵/۲۵۲)؛ نیز ملاحظہ ہو:ھامش الإحسان ۱۵/۷۹۔