کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 124
بے شک بنوقصی نے کہا:’’ہم میں(کعبۃ اللہ کی)دربانی[1]ہے۔‘‘ تو ہم نے کہا:’’ٹھیک ہے۔‘‘ پھر انہوں نے کہا:’’ہم میں(حاجیوں کو)پانی پلانا ہے۔‘‘ سو ہم نے کہا:’’ٹھیک ہے۔‘‘ پھر انہوں نے کہا:’’ہم میں ندوہ[2] ہے۔‘‘ سو ہم نے کہا:’’ٹھیک ہے۔‘‘ پھر انہوں نے کہا:’’ہم علم بردار [3]ہیں۔‘‘ سو ہم نے کہا:’’ٹھیک ہے۔‘‘ پھر انہوں نے(لوگوں کو)کھانا کھلایا اور ہم نے(بھی)کھلایا، یہاں تک کہ جب گھٹنے [4] برابر ہوئے،(تو)انہوں نے کہا:’’ہم سے نبی ہے۔‘‘ واللہ! میں ایسے نہیں کروں گا۔‘‘(یعنی میں ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کروں گا۔) اس واقعہ سے یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی بعض گلیوں میں ابوجہل کو دعوتِ اسلام دی۔
[1] یعنی کعبہ کی کلید برداری اور تولیت۔ [2] (ندوۃ):آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد قصی بن کلاب نے ایک دارالمشورۃ قائم کیا تھا، جس کا نام دارالندوۃ رکھا قریش جلسہ یا جنگ کی تیاری، قافلوں کی روانگی، نکاح اور دیگر تقریبات یہیں منعقد کرتے تھے۔(ملاحظہ ہو:سیرۃ النبی صلي الله عليه وسلم ۱/۱۰۵(علامہ شبلی نعمانی))۔ [3] یعنی جنگ کے موقع پر قریش کا جھنڈا ہم اٹھائیں گے۔ [4] یعنی عزت و شرف میں وہ اور ہم برابر ہوئے۔