کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 120
لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ۔‘‘ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم پر پڑاؤ ڈالا اور بڑے درختوں کے بارے میں حکم دیا، تو انہیں صاف کیاگیا۔ [1]پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(مجھے ایسے محسوس ہوا ہے، کہ)جیسے مجھے(اللہ تعالیٰ کے ہاں جانے کے لیے)بلایا گیا، تو میں نے(دعوت)قبول کرلی۔ ’’بے شک میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں۔ ان دونوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے:اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میرے انتہائی قریبی میرے اہل بیت۔ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو، کیونکہ وہ دونوں میرے پاس حوض(کوثر)پر آنے تک ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔‘‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللّٰہَ مَوْلَايَ، وَأَنَا وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ۔‘‘ ’’بے شک اللہ تعالیٰ میرے مددگار ہیں اور میں ہر مومن کا دوست ہوں۔‘‘ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِ عَلِيِّ رضی اللّٰهُ عنہ، فَقَالَ: ’’مَنْ کُنْتُ وَلِیَّہُ، فَہٰذَا وَلِیُّہُ۔ اَللّٰہُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔‘‘[2]
[1] یعنی صحابہ کرام کے بیٹھنے کے لیے درختوں کے نیچے جگہ صاف کرنے کا حکم دیا گیا۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ [2] السنن الکبری للنسائي، کتاب المناقب، فضائل علي رضی اللّٰه عنہ، رقم الحدیث ۸۰۹۲، ۷/۳۱۰؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۳/۱۰۹۔ الفاظ حدیث السنن الکبری کے ہیں۔ امام حاکم نے اسے [بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المستدرک ۳/۱۰۹؛ والتلخیص ۳/۱۰۹)۔ نیز ملاحظہ ہو:سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، رقم الحدیث ۱۷۵۰، ۴/۳۳۰۔۳۴۴؛ وہامش المسند، رقم الحدیث ۹۵۰، ۲/۲۶۲۔۲۶۳؛ وہامش صحیح السیرۃ النبویۃ لإبراہیم العلي ص ۵۵۱۔