کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 116
’’پس قسم ہے اس ذات کی، جن کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لیے وصیت ہے۔‘‘ ’’فَلْیُبْلِغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ۔ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔‘‘[1] (اور وصیت یہ ہے کہ)’’حاضر کو چاہیے، کہ وہ غیر حاضر کو(یہ بات)پہنچا دے۔ میرے بعد تم ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ ہو جانا۔‘‘ اس حدیث میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن منی میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ امام بخاری نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ الْخُطْبَۃِ أَیَّامَ مِنٰی] [2] [منیٰ کے دنوں میں خطبہ کے متعلق باب] حدیث میں دیگر چار فوائد: ۱: سامعین سے سوال کرکے انہیں گفتگو میں شریک کرنا۔[3] ۲: بات سمجھاتے ہوئے ماحول سے استفادہ کرنا۔ ۳: بات کا اعادہ کرنا۔[4] ۴: دوران گفتگو اشارے کا استعمال کرنا۔[5]
[1] صحیح البخاري، کتاب الحج، رقم الحدیث ۱۷۳۹، ۳/۵۷۳۔ [2] المرجع السابق ۳/۵۷۳۔ [3] تفصیل کے لیے دیکھئے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم‘‘ ص۲۲۲۔۲۲۷۔ [4] تفصیل کے لیے دیکھئے:المرجع السابق، ص۱۵۴۔۱۷۲۔ [5] تفصیل کے لیے دیکھئے:المرجع السابق، ص۱۷۵۔۱۷۹۔