کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 113
اور اسی مقام پر اب مسجد نمرہ ہے۔
اس حدیث میں دیگر چھ فوائد:
۱: تشبیہ کا استعمال کرنا۔[1]
۲: بات خوب واضح کرنے اور سمجھانے کے لیے ماحول سے استفادہ کرنا۔
۳: عمل کے ساتھ دعوت دینا۔[2]
۴: سامعین کو شریکِ گفتگو کرنا۔[3]
۵: گفتگو میں اشارے کا استعمال۔[4]
۶: بات کا اعادہ کرنا۔[5]
ب:عرفات اور مزدلفہ کے درمیان نصیحت:
امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ:
’’أَنَّہُ دَفَعَ مَعَ النَّبِیِّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم یَوْمَ عَرَفَۃَ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم وَرَائَہُ زَجْرًا شَدِیدًا وَضَرْبًا وَصَوْتًا لِلْإِبِلِ، فَأَشَارَ بِسَوْطِہِ إِلَیْہِمْ وَقَالَ:
’’أَیُّہَا النَّاسُ! عَلَیْکُمْ بِالسَّکِینَۃِ، فَإِنَّ الْبِرَّ لَیْسَ بِالْإِیضَاعِ۔‘‘[6]
’’بے شک وہ عرفہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ(میدانِ عرفات سے)واپس آرہے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے(اونٹوں کو ہانکنے کے
[1] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم‘‘ ص ۲۶۷۔۲۶۸۔
[2] ملاحظہ ہو:المرجع السابق ص۱۹۵۔۱۹۶۔
[3] ملاحظہ ہو:المرجع السابق ص ۲۲۲۔۲۲۷۔
[4] ملاحظہ ہو:المرجع السابق ص۱۷۵۔۱۷۹۔
[5] ملاحظہ ہو:المرجع السابق ص ۱۵۴۔۱۶۷۔
[6] صحیح البخاري، کتاب الحج، رقم الحدیث ۱۶۷۱، ۳/۵۲۲۔