کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 110
بِالْقَصْوَائِ، فَرُحِلَتْ لَہُ، فَأَتٰی بَطْنَ الْوَادِي۔‘‘
’’پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے گزر گئے،[1] یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں تشریف لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمرہ میں نصب شدہ خیمے کو پایا، تو اس میں ٹھہرے۔ جب سورج ڈھلا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قصواء(اونٹنی)کو تیار کرنے کا حکم دیا، تو آپ کے لیے اس پر پالان ڈالا گیا۔ آپ(اس پر سوار ہوکر)بطن الوادی[2] تشریف لائے۔‘‘
فَخَطَبَ النَّاسِ، وَقَالَ:
’’إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِي شَہْرِکُمْ ہٰذَا فِي بَلَدِکُمْ ہٰذَا۔ أَ لَا کُلُّ شَيْئٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَآئُ الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعَۃٌ۔ وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَآئِنَا دَمُ ابْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ، کَانَ مُسْتَرْضِعًا فِی بَنِي سَعْدٍ، فَقَتَلَتْہُ ہُذَیْلٌ۔ وَرِبَا الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، فَاِنَّہٗ مَوْضُوعٌ کُلُّہٗ۔
فَاتَّقُوا اللّٰہَ فِی النِّسَآئِ، فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوہُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ۔ وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ أَنْ لَّا یُوطِئْنَ فُرُشَکُمْ أَحَدًا تَکْرَہُونَہٗ۔ فَإِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ۔
وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔
[1] یعنی مزدلفہ میں رکے بغیر وہاں سے گزر گئے اور عرفات کی طرف روانہ ہوگئے۔(ملاحظہ ہو:ہامش صحیح مسلم، ۲/۸۸۹)۔
[2] یعنی وادی عرنہ میں تشریف لائے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۲/۸۸۹)۔