کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 103
ا:منیٰ میں دعوتِ توحید:
امام طبرانی نے مدرک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،(کہ)انہوں نے بیان کیا:
’’حَجَحْتُ مَعَ أَبِيْ، فَلَمَّا نَزَلْنَا مِنَی إِذَا نَحْنُ بِجَمَاعَۃٍ، فَقُلْتُ لِأَبِيْ:’’مَا ہٰذِہِ الْجَمَاعَۃُ؟‘‘
’’میں نے اپنے باپ کے ساتھ حج کیا۔ جب ہم منیٰ میں اترے، تو ہمارے(سامنے)ایک گروہ تھا۔ میں نے اپنے باپ سے پوچھا:’’یہ ٹولی کیسی ہے؟‘‘[1]
انہوں نے جواب دیا:’’ہٰذَا الصَّابِیئُ‘‘
’’یہ بے دین۔ معاذ اللہ۔‘‘(یعنی اس کی بنا پر لوگ جمع ہوئے ہیں)
فَإِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم یَقُوْلُ:’’ یَا اَیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا:’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا۔‘‘[2]
’’تو(وہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جو کہ فرما رہے تھے:اے لوگو! تم [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ] کہو، فلاح پالو گے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں لوگوں کو توحید کا اقرار کرنے کا حکم دیا اور ایسے کرنے کا عظیم الشان ثمرہ بیان فرما کر اس کی پر زور ترغیب دی۔ فصلوات ربي وسلامہ علیہ۔
[1] یعنی یہ کہ کیوں اکٹھے ہوئے ہیں ؟
[2] منقول از:مجمع الزوائد، کتاب المغازي والسیر، باب تبلیغ النبي صلي الله عليه وسلم ما أرسل بہ وصبرہ علی ذٰلک، ۶/۲۱۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں، کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے روایت کرنے والے [ثقہ] ہیں۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۶/۲۱)۔