کتاب: دعوت دین کہاں دی جائے؟ - صفحہ 101
وہ مدینہ(طیبہ)پلٹ گئے اور(وہاں)اوس اور خزرج کے درمیان جنگ بعاث ہوئی۔‘‘[1]
انہوں نے بیان کیا:
’’ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ إِیَاسُ بْنُ مُعَاذٍ أَنْ ہَلَکَ۔
قَالَ مَحْمُوْدُ بْنُ لَبِیْدٍ رضی اللّٰهُ عنہ:’’فَأَخْبَرَنِيْ مَنْ حَضَرَہُ مِنْ قَوْمِيْ عِنْدَ مَوْتِہِ أَنَّہُمْ لَمْ یَزَالُوْا یَسْمَعُوْنَہُ یُہَلِّلُ اللّٰہَ وَیُکَبِّرُہُ وَیَحْمَدُہُ وَیُسَبِّحُہُ، حَتّٰی مَاتَ، فَمَا کَانُوْا یَشُکُّوْنَ أَنْ قَدْ مَاتَ مُسْلِمًا، لَقَدْ کَانَ اِسْتَشْعَرَ الْإِسْلَامَ فِيْ ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ حِیْنَ سَمِعَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم مَا سَمِعَ۔‘‘[2]
’’پھر ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ جلد ہی فوت ہوگئے۔
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:’’میری قوم کے جو لوگ اس کی موت کے وقت اس کے پاس موجود تھے، انہوں نے مجھے بتلایا، کہ وہ اسے موت تک اللہ تعالیٰ کی تہلیل، [3] تکبیر،[4]تحمید [5] اور تسبیح [6] پکارتے ہوئے
[1] (بُعَاث):مدینہ طیبہ سے دو رات کے فاصلے پر ایک جگہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پیشتر اس مقام پر مدینہ کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔(ملاحظہ ہو:معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، الباء والعین، ۱/۲۵۹۔۲۶۰)۔
[2] المسند، رقم الحدیث ۲۳۶۱۹، ۳۹/۳۰۔۳۱؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۳/۱۸۰۔۱۸۱۔ امام حاکم نے اسے [مسلم کی شرط پر صحیح] کہا ہے، حافظ ہیثمی نے لکھا ہے، کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راویان ثقہ ہیں۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۳/۱۸۱؛ ومجمع الزوائد ۶/۳۶؛ وہامش المسند ۳۹/۳۱)۔
[3] (تہلیل):لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنا۔
[4] (تکبیر):اللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا۔
[5] (تحمید):اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا۔
[6] (تسبیح):سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا۔